بلاگز – Urdu Express https://tours.bitsnclicks.com Mon, 16 Dec 2024 08:08:25 +0000 ur hourly 1 https://wordpress.org/?v=6.7.2 https://tours.bitsnclicks.com/wp-content/uploads/2024/12/URDU-EXPRESS-LOGO-01-01-2-150x150.png بلاگز – Urdu Express https://tours.bitsnclicks.com 32 32 غلط غلط ہی ہوتا ہے۔ غلط کام کبھی صحیح نہیں ہوتا https://tours.bitsnclicks.com/%d8%ba%d9%84%d8%b7-%d8%ba%d9%84%d8%b7-%db%81%db%8c-%db%81%d9%88%d8%aa%d8%a7-%db%81%db%92%db%94-%d8%ba%d9%84%d8%b7-%da%a9%d8%a7%d9%85-%da%a9%d8%a8%da%be%db%8c-%d8%b5%d8%ad%db%8c%d8%ad-%d9%86%db%81/ https://tours.bitsnclicks.com/%d8%ba%d9%84%d8%b7-%d8%ba%d9%84%d8%b7-%db%81%db%8c-%db%81%d9%88%d8%aa%d8%a7-%db%81%db%92%db%94-%d8%ba%d9%84%d8%b7-%da%a9%d8%a7%d9%85-%da%a9%d8%a8%da%be%db%8c-%d8%b5%d8%ad%db%8c%d8%ad-%d9%86%db%81/#respond Mon, 16 Dec 2024 08:08:25 +0000 https://urduexpress.pk/?p=6463 (اُردو ایکسپریس)

رائٹر(شازیہ راجہ)
میں کل رجب بٹ کی شادی کے متعلق کچھ کمنٹس پڑھ رہی تھی جو کچھ اس طرح سے تھے.

اسی شادی ہے، وہ جو بھی کرے.
اس کے پیسے ہیں، وہ استعمال کرے یا اڑا دے.
اس کی ماں بہن بیوی ہے، جس کو مرضی دکھائے.
اس کا چینل ہے، وہ جو مرض اپلوڈ کرے.
اس کا کام ہے، وہ جیسے مرضی پیسہ کمائے.

میں نے سب کمنٹس پڑھے اور سوچا کہ اگلی پوسٹ لکھوں گی.

جواب :
جتنے لوگ بھی اس یو ٹیوبر پر تنقید کر رہے ہیں، اس کے پیچھے کچھ دلائل بھی ہیں.

رجب بٹ ایک کلچر متعارف کرا رہا ہے. ایک نیا ٹرینڈ سیٹ کر رہا ہے. کچھ نئی روایات سیٹ کر رہا ہے.
یہ تمام وہ روایات ہیں جو ہماری نئی نسل کے لئے کسی صورت میں ٹھیک نہیں. ابھی یہ سب کچھ موبائل پر بچے دیکھ رہے ہیں. نوجوان نسل بھی یہ سب دیکھ رہی ہے.

کچھ ہی وقت کے بعد ہر گھر میں نوجوان نسل یہی سب کرنے کی کوشش کرے گی. ابھی بھی بہت سے نوجوانوں نے پڑھائی کو خیر آباد کہہ کر موبائل اور کیمرے اٹھا کر ٹک ٹاک پر ویڈیو بنانے شروع کر دئیے ہیں.

اگر ہم سب نے اس کلچر کو پرموٹ کیا تو ہمارا اسلامی معاشرہ تباہی کے دھانے پہنچ جائے گا.

ہر پلیٹ فارم پر اس طرح کے واہیات کلچر کے خلاف ضرور آواز اٹھائیں.

]]>
https://tours.bitsnclicks.com/%d8%ba%d9%84%d8%b7-%d8%ba%d9%84%d8%b7-%db%81%db%8c-%db%81%d9%88%d8%aa%d8%a7-%db%81%db%92%db%94-%d8%ba%d9%84%d8%b7-%da%a9%d8%a7%d9%85-%da%a9%d8%a8%da%be%db%8c-%d8%b5%d8%ad%db%8c%d8%ad-%d9%86%db%81/feed/ 0
آخری پتے کا کھیل https://tours.bitsnclicks.com/%d8%a2%d8%ae%d8%b1%db%8c-%d9%be%d8%aa%db%92-%da%a9%d8%a7-%da%a9%da%be%db%8c%d9%84/ https://tours.bitsnclicks.com/%d8%a2%d8%ae%d8%b1%db%8c-%d9%be%d8%aa%db%92-%da%a9%d8%a7-%da%a9%da%be%db%8c%d9%84/#respond Fri, 13 Dec 2024 04:16:34 +0000 https://urduexpress.pk/?p=6385 (اُردو ایکسپریس)

دھماکہ خیز ہفتہ گزر گیا، دھماکے دار ہفتہ شروع، فریقین آخری پتہ کھیل گئے۔ ’’ہم حکومت سے کسی پیشگی مطالبے یا غیر مشروط مذاکرات کیلئے تیار ہیں‘‘، چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر علی، شبلی فراز، اسد قیصر، سلمان اکرم راجہ، شیخ وقاص وغیرہ کی نئی نویلی بُردباری، لجاجت اور منکسر المزاجی، منت سماجت PTIکی انوکھی تصویر اور خیرہ کن کہانی سامنے ہے۔

بہت دیر کی مہرباں آتے آتے، کاش 10اپریل 2022کو یہی رویہ اپناتے تو سیاسی رفعتیں پاتے۔PTI رہنماؤں کی گھن گرج، ’’عزم صمیم کہ کرپٹ سیاستدانوں کی ’فارم 47‘ حکومت کو چمٹے سے نہیں اٹھائیں گے‘‘، بیانیہ جھاگ کی طرح بیٹھ چکا ہے۔

قبل ازیں عمران خان نے بقلم خود مذاکراتی کمیٹی تشکیل دی، بنفس نفیس حکومت سے مذاکرات کو حلال قرار دے دیا۔ ستم ظریفی دوران بغیر معافی مانگے محمود اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان کو ہم جولی بنایا اور اب مسلم لیگ ن سے مذاکرات کی کڑوی گولی نگل لی ہے، بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے۔ نیا یوٹرن ملکی سیاست کیلئے خوش آئند ہے۔ یقیناً! سیاسی جماعتوں کی بیٹھک، سیاسی استحکام کی طرف شروعات، سیاسی رواداری کیلئے ایک اہم قدم ہے۔

’’مارؤ یا مر جاؤ‘‘ احتجاج کی شاندار ناکامی کے بعد، ہمشیرہ صاحبہ نے جب پہلی دفعہ کلام شاعر بذبان شاعر، عمران خان کو 26 نومبر کے حالات سے آگاہ کیا، ’’ڈی چوک پر خون کی ندیاں رواں، نشانہ بازوں نے تاک تاک کر لاشوں پہ لاشیں گرائیں‘‘ تو نرم دل عمران خان سُن کر صدمہ سے نڈھال ہو گئے۔ ’’آخری پتہ‘‘ کھیلنے کا بڑا فیصلہ کر ڈالا۔

نئی نویلی ہزیمت ’’مارو یا مر جاؤ‘‘ کا حاصل حصول، ’’بھاگو اور جان بچاؤ‘‘، نیا ٹرینڈ ’’گولی کیوں چلائی‘‘ سوشل میڈیا پر چھا گیا۔ پوچھنا بنتا ہے کہ ڈی چوک ایسے وقت کیوں گئے تھے جبکہ بیلاروس کا صدر مع 70رکنی وفد وزیر اعظم ہاؤس میں موجود تھا۔ کفن پہن کر اسلام آباد چڑھائی کی بڑھک، ’’گھر والوں کو بتا دیا کہ واپس نہ آئے تو ہمارے جنازے پڑھ لینا‘‘۔

اب جبکہ قومی قیادت باجماعت باحفاظت اپنے اپنے گھر واپس، کفن اُتار کر شلوار قمیض دوبارہ زیب تن کر چکی۔ قطع نظر کہ 26نومبر دھرنا کے وسائل (LOGISTICS) دور دور تک موجود نہیں تھے، یقیناً شر انگیزی نے ہی کام آنا تھا۔ کیا اچھے دن تھے جب جلوس، ریلیوں، دھرنوں کے وسائل (LOGISTICS) دردِ سر نہ تھے کہ اسٹیبلشمنٹ نے یہ معمولی ذمہ داری اپنے ’’بھاری بھر کم کندھوں‘‘ پر اٹھا رکھی تھی۔ 24نومبر شاید پہلا لانگ مارچ جو بغیر سہارے اپنے کمزور کندھوں پر کیا۔
گولی کیوں چلائی‘‘ یا ’’گولی نہیں چلی‘‘، میرے نزدیک دونوں مؤقف مبالغہ آمیز، جھوٹ سے آلودہ ہیں۔ عمران خان کیلئے انسانی جان کی کتنی اہمیت، مجھ سے زیادہ کوئی نہیں جانتا۔ دو سال پہلے ملتان جلسہ دوران بھگدڑ ہلاکتوں اور زخمیوں کی جو قدر افزائی ہوئی، نہ صرف جلسہ جاری رہا، کسی کا جنازہ پڑھا نہ زخمی کارکنوں کی عیادت کی۔

سیاسی جلوسوں پر فائرنگ سے بھی وطنی تاریخ لبالب ہے۔ مثال کیلئے بھٹو حکومت کی 23مارچ 1974کو لیاقت باغ میں ولی خان کے جلسے پر گولیوں کی بوچھاڑ، دو درجن کارکنان کی شہادت، 9اپریل 1977قومی اتحاد کے جلوس پر لاہور ہائیکورٹ کےسامنے فائرنگ (بنفس نفیس جلوس کا حصہ) 9افراد کی شہادت درجنوں زخمی، درجنوں ایسے واقعات کالم میں سمیٹنا مشکل ہے۔

’’مارو یا مر جاؤ‘‘ مارچ سے پہلے عمران خان احتجاجی ناکامیوں سے مزین، ہر احتجاج PTIسیاست کو نقصان پہنچا گیا، سبق نہیں سیکھا۔ ناکامیوں کے بھرپور تجربہ کے باوجود بلکہ تازہ بہ تازہ آخری پتہ کھیلنے کا اعلان، اپنے ہاتھوں سے اپنی سیاست کو زندہ یا مردہ درگور کرنا ہی ہے۔

آخری پتہ! 14دسمبر تک 2مطالبات، (عمران خان کی رہائی اور 9مئی 2023/ 26نومبر پر جوڈیشل کمیشن) نہ مانے گئے تو ’’سول نافرمانی اور ترسیلات زر رُکوانا‘‘،24 نومبر تازہ بہ تازہ ناکامی کے بعد بھی کس گھمنڈ پر نیا اعلامیہ، سمجھ کے کسی خانے میں فٹ نہیں بیٹھتا۔ اب تک ایک بات راسخ، وطن عزیز کی ساکھ اور معیشت پر حملہ عمران خان کی احتجاجی سیاست کا جزو لاینفک بن چکا ہے۔ ہر مارچ میں ایک قدر مشترک، موصوف کی سیاست پسپا ہوئی، ہر بار ہزیمت اٹھائی۔ 9مئی 2023کو عمران خان کی گرفتاری پر ردعمل میں ہزاروں گرفتار، 24نومبر عمران خان اور 9 مئی کے قیدیوں کو ہی رہا کروانے آئے تھے۔ حاصل حصول، بقول چیئرمین PTI بارہ ہلاکتیں ( 4/5سے زیادہ کے کوائف موجود ہی نہیں ) مع 1500گرفتاریاں دے کر بھاگنا پڑا یعنی کہ لینے کے دینے پڑے ، ہر بار گھاٹے کا سودا کیا۔

ایک طرف غیر مشروط مذاکرات، دوسری طرف انہی تاریخوں میں سول نافرمانی اور غیرملکی ترسیلات زر رُکوانے کا الٹی میٹم، عمران خان کی دوغلی سیاست ہی متحمل ہو سکتی ہے۔ اسٹیبلشمنٹ نے جب سے جنرل فیض حمید کو گرفتار کیا، PTI صفوں میں بے چینی بڑھ گئی۔ چند دن پہلے جنرل فیض حمید پر فردجرم عائد یعنی کہ اسٹیبلشمنٹ نے بھی اپنا آخری پتہ کھیل دیا۔

ISPR اعلامیہ میں دل دہلانے کو بہت کچھ ملفوف، 50کے لگ بھگ سیاستدانوں سے جنرل فیض کے رابطے قابل ذکر ہیں۔ جنرل فیض پاکستانی تاریخ کا ایک گھناؤنا کردار ضرور، سیاستدانوں سے رابطے کسی طور جرم نہیں بلکہ انکا کریڈٹ ہے۔ سیاسی انجینئرنگ، جوڑ توڑ ہماری اسٹیبلشمنٹ اس کاروبار میں دہائیوں سے ملوث، آج بھی سکہ رائج الوقت ہے۔ جنرل فیض کا واحد جرم جو اس ممد ومعاون کو تختہ دار تک رسائی دے گا، وہ یکم نومبر 2023کا لانگ مارچ ہے۔ جنرل عاصم منیر کی بطور آرمی چیف تعیناتی رُکوانا تھا۔

فیض ٹیم نےجان پر کھیل کر اپنے ادارے کا نظام تلپٹ کرنے کی جسارت کی۔ مقصد لاقانونیت پھیلا کر ملک میں مارشل لا لگوانا تھا۔ سارے جتن اپنے ہی ادارے کیخلاف براہِ راست حملہ تھے۔ فوج کی روح اور جان اسکا ڈسپلن، راولپنڈی سازش کیس 1951کے بعد شاید دوسری بار ڈسپلن پر ایسا حملہ ہوا۔
علاوہ ازیں GHQ پر عمران خان کی چڑھائی، عمران خان کا صدر علوی سے مل کر نوٹیفیکیشن سے کھیلنا، اگر فیض عمران NEXUS پر اس خانے میں گرفت نہ ہو پائی تو خاطر جمع رکھیں باقی تمام کیسز بشمول سانحہ 9 مئی پر تادیبی کارروائیاں بے اثر رہنی ہیں۔ اب جبکہ عمران خان سیاست کا TITANIC اسٹیبلشمنٹ کے برفانی تودے سے ٹکرا چکا ہے، آنیوالے دن لرزہ براندام رکھیں گے۔ ایسے میں بیرسٹر گوہر کی مذاکرات کی پیشکش، وطنی سیاسی استحکام میں مددگار بن سکتی ہے۔

میرے نزدیک چیئرمین PTI کا بروقت فیصلہ اور ایک احسن قدم ہے۔ ایک اہم خبر اقتدار کی غلام گردش میں اور بھی، PTI پس پردہ PPP سے معاملات طے کر کے شہباز حکومت گرانے کے چکر میں مصروف عمل ہے، میرے نزدیک خوش آئند ہے۔ شہباز پرواز کی ایسی کریش لینڈنگ ہو بھی جائے تو ایسی قربانی سیاسی استحکام کیلئے تریاق ثابت ہو گی۔ بہر صورت، وطنی صورتحال فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہوچکی ہے۔ باقی رہے نام اللّٰہ کا!

]]>
https://tours.bitsnclicks.com/%d8%a2%d8%ae%d8%b1%db%8c-%d9%be%d8%aa%db%92-%da%a9%d8%a7-%da%a9%da%be%db%8c%d9%84/feed/ 0
جان ‘سب کی’ قیمتی ہے، تحریر: جہانگیر خان https://tours.bitsnclicks.com/%d8%ac%d8%a7%d9%86-%d8%b3%d8%a8-%da%a9%db%8c-%d9%82%db%8c%d9%85%d8%aa%db%8c-%db%81%db%92%d8%8c-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%ac%db%81%d8%a7%d9%86%da%af%db%8c%d8%b1-%d8%ae%d8%a7%d9%86/ https://tours.bitsnclicks.com/%d8%ac%d8%a7%d9%86-%d8%b3%d8%a8-%da%a9%db%8c-%d9%82%db%8c%d9%85%d8%aa%db%8c-%db%81%db%92%d8%8c-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%ac%db%81%d8%a7%d9%86%da%af%db%8c%d8%b1-%d8%ae%d8%a7%d9%86/#respond Mon, 02 Dec 2024 17:11:59 +0000 https://urduexpress.pk/?p=6282

خیبر پختونخواہ کے ضلع کرم کے گاوں، بگن کے ایک رہائشی نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ، ’میں ابھی اگر بتاؤں تو پورا گاؤں ویران ہے، بازار اور دکانیں جل چکی ہیں، ڈسپرین کی گولی بھی لینے جائیں تو نہیں ملتی، چائے کی پتی اور چینی تک دکانوں پر نہیں۔ قریب کے علاقوں سے اگر لوگ آتے ہیں تو وہاں سے سامان لے آتے ہیں، کچھ لوگ کھانے پینے کی چیزیں بھجوا دیتے ہیں، بس اسی طرح گزارہ کر رہے ہیں۔‘

ضلع کرم کے اندر، ویسے تو گزشتہ چند ماہ سے مسلسل کشیدگی جاری ہے لیکن کچھ دن قبل مسافر گاڑیوں کے ایک قافلے پر جب مسلح افراد نے جان لیوا حملہ کیا تو سوشل میڈیا پر دل دہلا دینی والی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔
پاکستانی الیکٹرانک میڈیا نے اول تو اس خبر کو ‘پلے ڈاون’ کیا لیکن پھر ماحول کی سنجیدگی کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے یہ خبر چلائی۔ البتہ، سوشل میڈیا صارفین الیکٹرانک میڈیا کے اس رویے سے نالاں نظر آئے۔ وہاں کے لوکل صارفین نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پر لکھا اور بتایا کہ، اموات کی تعداد غلط بتائی جا رہی ہے، حقیقت میں ہلاکتیں کہیں زیادہ ہوئی ہیں۔
پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کے برعکس غیر ملکی میڈیا نے ان پر تشدد واقعات کو خوب کووریج دی، اصل حقائق عوام کے سامنے رکھیں اور اب تک ان واقعات کی مسلسل کووریج کر رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو اب بھی خیبر پختونخواہ سمیت 4 صوبوں کے کثیر عوام اس افسوسناک خبر سے بے خبر ہیں اور ان کو معلوم ہی نہیں کہ، ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔
اول، جہاں یہ ہلاکتیں ہوئی ہیں اور جس وجہ سے ہوئی ہیں، کثیر عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں، نہ ہی وہ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ، ان پر تشدد واقعات کے باعث ان کے کسی ذاتی مفاد کو ٹھیس نہیں پہنچ رہا، اس لئے وہ خاموش ہیں۔
دوم، ملک کے بڑے بڑے میڈیا چینلز، صوبائی و وفاقی حکومت کے اعلی عہدیداران اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پر چپ سادھ لئے ہوئے ہیں۔ پنجاب اور وفاقی حکومتیں اس کو ایک کارڈ کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ، خیبر پختونخواہ میں خون بہہ رہا ہے اور وزیراعلی علی امین گنڈاپور وفاق پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔
یہ بیان خواجہ آصف نے شاید اس لئے دیا تھا کیونکہ، پی ٹی آئی نے 24 نومبر کو ڈی چوک، اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا اور یہ واضح کیا تھا کہ، یہ فائنل کال ہے، اب کی بار مطالبات پورے ہونے تک واپس نہیں جائیں گے۔ خواجہ صاحب کے بیان سے ایسا معلوم ہوا کہ، جیسے وہ صوبائی حکومت کو طعنہ دے رہے ہوں۔
ضلع کرم کے قبائلی تنازعات بارے خیبر پختونخواہ حکومت کا رویہ بھی کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں ہے، انہوں نے فریقین سے مذاکرات کئے، سیز فائر کا اعلان ہوا، لاشیں لواحقین کے حوالے کر دی گئیں لیکن ابھی تک چھڑپیں جاری ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر معصوم لوگ موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں، جو کہ صوبائی حکومت کی واضح ناکامی ہے۔
ایک غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق اب تک تقریبا 300 گھرانے گاوں، بگن سے نقل مکانی کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔
اب ذرا ڈی چوک فائنل کال کی بات کرتے ہیں۔ عمران خان نے فائنل کا دی، عوام عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی اور وزیراعلی علی امین گنڈاہور کی قیادت میں نکلیں، تمام رکاوٹیں عبور کرکے ڈی چوک، اسلام آباد پہنچ گئے، پھر رات کو اسٹریٹ لائٹس بند کرکے جو گرینڈ آپریشن کیا گیا وہ سب کو بخوبی معلوم ہے۔
پاکستانی الیکٹرانک میڈیا نے ایک بار پھر اپنی اصلیت آشکار کرتے ہوئے اس خبر کو ‘پلے ڈاون’ کیا اور عوام سے حقائق چھپا دئے۔ سینئر صحافی حامد میر نے ایک غیر ملکی میڈیا ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ، الیکٹرانک میڈیا کو حقائق سامنے نہ لانے کا کہا گیا تھا۔
غیر ملکی میڈیا نے یہاں بھی غیر جانبداری کا اپنا فرض نبھاتے ہوئے ڈی چوک کے قریبی ہسپتالوں کا وزٹ کیا، وہاں سے گرینڈ آپریشن کی رات کا ڈیٹا اکھٹا کیا، ڈاکٹرز سے حقائق جاننے کی کوشش کی اور یوں پورے ملک کو پتا چلا کہ، اس رات کس قدر مظالم ڈھائے گئے، ایک جمہوری سیاسی جماعت کے کارکنان پر سیدھی گولیاں برسائی گئیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے بلند و بانگ دعوے کئے کہ، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے جاری کئے گئے جان سے جانے والے 12 ناموں کی فہرست اور غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس شائع ہونے کے بعد ان کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، بلکہ عطا اللہ تارڑ کی جماعت کے اپنے رہنما رانا ثناءاللہ نے اعتراف کیا کہ، اس رات پی ٹی آئی کے کچھ کارکنان کی موت واقع ہوئی ہے۔
یہاں دو باتیں اہم ہیں۔ پہلی، پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا رپورٹنگ میں فرق، کس قدر ہمارے میڈیا چینلز دباو کا شکار ہیں، ‘اتھاریٹیرین سٹیٹس’ میں میڈیا کا یہی حال ہوتا ہے، وہ اپنے پولیٹیکل-اکنامک انٹرسٹس کو سامنے رکھ کر کام کرتے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا پر ہماری ریاست کوئی دباو نہیں ڈال سکتی، اس لئے وہ بغیر کسی ڈر اور خوف زمینی حقائق سامنے لاتے ہیں۔
جب تک صحافیوں کو سچ بولنے سے منع کیا جائے گا تب تک عوام میں شعور نہیں آئے گا، اصلاح کا عمل رک جائے گا، اور ہم جانوروں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہوں گے۔ جمہوری ریاست میں ہر فرد کو اظہار رائے کی آزادی ہوتی ہے، یہ ہر فرد کا بنیادی آئینی حق ہے، جو کوئی چھین نہیں سکتا۔
دوسری، عوام اور حکومتی عہدیداران کے ذاتی مفادات، ضلع کرم میں چند دنوں کے اندر اب تک 100 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، واقعے کے پہلے دن چرچا ہوا لیکن پھر خاموشی چھا گئی، اس کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلی، کوئی سوگ نہیں منایا گیا، کوئی احتجاج اور دھرنا نہیں ہوا کیونکہ اس میں شاید کسی کو اپنا مفاد نظر نہیں آ رہا۔
اس کے برعکس خیبر پختونخواہ حکومت نے ڈی چوک فائنل کال کے دوران مرنے والے افراد کے خاندانوں کیلئے فی کس ایک ایک کروڑ روپے کا اعلان کیا، صوبائی اسمبلی میں اس کے خلاف تقاریریں ہوئیں، تین دن سوگ منایا گیا۔ ان کے بعض رہنماوں نے اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر جھوٹا پراپیگنڈا کیا، لطیف کھوسہ نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں سینکڑوں کارکنان کے لقمہ اجل بننے کا دعوی کیا، جس کے ابھی تک کوئی شواہد نہ ملے۔
میڈیا اور حکومتی عہدیداران کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ، جان ‘سب کی’ قیمتی ہے، پھر چاہے پنجابی، پختون، سندھی، بلوچی، گلگتی، کشمیری یا کوئی بھی ہو، چاہے پی ٹی آئی کا ہو، چاہے ‘ن’ لیگ کا ہو، چاہے ایم کیو ایم کا ہو، چاہے تحریک لبیک کا ہو۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ، ہم بطور قوم حق اور سچ کا دامن پکڑے رکھیں، کوئی متعصب رویہ اختیار نہ کریں، سب کو برابر کے حقوق دیں، کوئی پنجابی، پختون، سندھی، بلوچی، کشمیری اور گلگتی کارڈ نہ کھیلیں۔
جب تک ہم اپنے ذاتی مفادات پرے رکھ کر قومی مفاد کو فوقیت نہیں دیں گے، تب تک ہم کسی قسم کی ترقی نہیں کر سکتے۔ سیاسی جماعتیں جب تک دوسروں کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کی کرسی تک جانے کا گھناونا عمل جاری رکھیں گی، تب تک ذلت و خواری ہمارا مقدر رہے گی۔

نوٹ: اُردو ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں

]]>
https://tours.bitsnclicks.com/%d8%ac%d8%a7%d9%86-%d8%b3%d8%a8-%da%a9%db%8c-%d9%82%db%8c%d9%85%d8%aa%db%8c-%db%81%db%92%d8%8c-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%ac%db%81%d8%a7%d9%86%da%af%db%8c%d8%b1-%d8%ae%d8%a7%d9%86/feed/ 0
چیمپئنز ٹرافی کے شیڈول کی ڈیڈ لائن ختم، براڈ کاسٹرز کیا قدم اٹھاسکتے ہیں؟ https://tours.bitsnclicks.com/%da%86%db%8c%d9%85%d9%be%d8%a6%d9%86%d8%b2-%d9%b9%d8%b1%d8%a7%d9%81%db%8c-%da%a9%db%92-%d8%b4%db%8c%da%88%d9%88%d9%84-%da%a9%db%8c-%da%88%db%8c%da%88-%d9%84%d8%a7%d8%a6%d9%86-%d8%ae%d8%aa%d9%85%d8%8c/ https://tours.bitsnclicks.com/%da%86%db%8c%d9%85%d9%be%d8%a6%d9%86%d8%b2-%d9%b9%d8%b1%d8%a7%d9%81%db%8c-%da%a9%db%92-%d8%b4%db%8c%da%88%d9%88%d9%84-%da%a9%db%8c-%da%88%db%8c%da%88-%d9%84%d8%a7%d8%a6%d9%86-%d8%ae%d8%aa%d9%85%d8%8c/#respond Fri, 22 Nov 2024 05:48:21 +0000 https://urduexpress.pk/?p=5988 (اردو ایکسپریس)

فروری میں پاکستان میں ہونے والی آئی سی سی چیمپئنز ٹرافی پر آئی سی سی، پاکستان اور بھارت کے درمیان ڈیڈلاک برقرار ہے جب کہ شیڈول کی ڈیڈ لائن ختم ہوگئی ہے۔

پاکستان اپنے مؤقف پر ڈٹا ہوا ہے کہ بھارت پاکستان نہیں آئے گا تو ہمیں کسی اور ملک میں کھیلنا قبول نہیں ہے، ٹورنامنٹ سے دستبردار ہونے کے لیے تیار ہیں۔ دوسری جانب بھارتی کرکٹ بورڈ کے سیکرٹری جے شاہ آئی سی سی ہیڈ کوارٹر دبئی پہنچ گئے ہیں ۔

محسن نقوی نے بھارت سے خاموشی سے بات چیت اور درمیانی راستہ اختیار کرنے کا مشورہ ماننے سے انکار کرکے آئی سی سی حکام کو پیغام پہنچا دیا ہے کہ اگر بھارت چیمپئنز ٹرافی کھیلنے نہیں آتا تو ہماری حکومت بھی بتا چکی ہے کہ بھارت سے نہ کھیلیں اس لیے جیسے کو تیسا کی پالیسی اختیار کی جائے گی، اس بار کسی بھی دباؤ میں ہائی برڈ ماڈل قبول نہیں کیا جائے گا۔

بھارت پاکستان نہیں آتا تو قانون کے مطابق نویں ٹیم سری لنکا کو شامل کیا جائے ، پھر بھی آئی سی سی بھارت کو شامل کرنے پر مصر ہے تو پھر پاکستانی ٹیم ٹورنامنٹ میں شرکت نہیں کرے گی۔

بھارت کی وجہ سے پیسہ آتا ہے تو پاکستان ٹیم کی اپنی اہمیت ہے، پاکستان نہ کھیلا تو بھارت کسی اور ٹیم کے ساتھ کھیل کر آئی سی سی کا خزانہ بھر دے۔ چیمپئنز ٹرافی شروع ہونے میں 90 سے کم دن رہ گئے ہیں لیکن ٹورنامنٹ میں تنازع پر باضابطہ کوئی پیشرفت نہیں ہوئی ہے۔

جے شاہ یکم دسمبر کو آئی سی سی چیئرمین بن جائیں گے۔ حددرجہ مصدقہ ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی اسپانسرز، بھارتی براڈ کاسٹرز اور سب سے بڑھ کر بھارتی اثر و رسوخ میں کام کرنے والی آئی سی سی فرنٹ فٹ پر آنے کو تیار نہیں، ابھی تک پوسٹ مین کا کردار ادا کررہی ہے۔ اس نے پاکستان کو بھارتی بورڈ سے ڈائیلاگ شروع کرنے کا پیغام دیا ہے لیکن پی سی بی چیئرمین محسن نقوی نے واضح کردیا ہے کہ کسی سے کوئی بات نہیں کریں گے۔

ذرائع کے مطابق پاکستان کا مؤقف ہے کہ21اکتوبر کو آئی سی سی بورڈ میٹنگ میں پاکستان کو بھارت کے کسی اعتراض کا نہیں بتایا گیا تھا اس لیے پاکستان اسی پوزیشن پر قائم ہے جب کہ آئی سی سی کو لکھے گئے خط کا جواب ابھی تک نہیں آسکا ہے، پی سی بی کو یقین ہے کہ بھارتی بورڈ نے پاکستان نہ جانے سے متعلق زبانی بتایا ہے۔ اگر آئی سی سی کے پاس بھارتی حکومت یا بورڈ کا خط ہوتا تووہ پاکستان کو ضرور بتاتے۔ جے شاہ کے والد امیت شاہ، بھارت کے وزیر داخلہ ہیں اس لیے وہ اپنے والد کے اثر و رسوخ کی وجہ سے آئی سی سی کو زبانی ہی بھارتی بورڈ کا موقف بتاتے ہیں۔

واضح رہے کہ بھارتی ہٹ دھرمی کے باعث آئی سی سی تاحال شیڈول اعلان نہیں کر سکی ہے۔ آئی سی سی کو براڈ کاسٹرز کی جانب سے شیڈول کے جلد اعلان کے لیے دباؤ کا سامنا ہے اور براڈ کاسٹ رائٹس کے مطابق پاک بھارت میچ نہ ہونے پر انٹرنیشنل کرکٹ کونسل کو قانونی چارہ جوئی کا سامنا بھی کرنا پڑ سکتا ہے۔

دونوں ممالک کے غیرلچکدار موقف کے بعد آئی سی سی کا ہنگامی بورڈ اجلاس بلایا جاسکتا ہے جس میں اس معاملے پر تبادلہ خیال اور ووٹنگ کا امکان ہے۔ ذرائع کے مطابق بھارتی بورڈ پاکستان آمد اور پاکستان ہائبرڈ ماڈل پر راضی نہیں ہے۔

]]>
https://tours.bitsnclicks.com/%da%86%db%8c%d9%85%d9%be%d8%a6%d9%86%d8%b2-%d9%b9%d8%b1%d8%a7%d9%81%db%8c-%da%a9%db%92-%d8%b4%db%8c%da%88%d9%88%d9%84-%da%a9%db%8c-%da%88%db%8c%da%88-%d9%84%d8%a7%d8%a6%d9%86-%d8%ae%d8%aa%d9%85%d8%8c/feed/ 0
"سفید سونا جو مٹی ہوتا جارہا ہے” تحریر : ساجد محمود https://tours.bitsnclicks.com/%d8%b3%d9%81%db%8c%d8%af-%d8%b3%d9%88%d9%86%d8%a7-%d8%ac%d9%88-%d9%85%d9%b9%db%8c-%db%81%d9%88%d8%aa%d8%a7-%d8%ac%d8%a7%d8%b1%db%81%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%b3%d8%a7/ https://tours.bitsnclicks.com/%d8%b3%d9%81%db%8c%d8%af-%d8%b3%d9%88%d9%86%d8%a7-%d8%ac%d9%88-%d9%85%d9%b9%db%8c-%db%81%d9%88%d8%aa%d8%a7-%d8%ac%d8%a7%d8%b1%db%81%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%b3%d8%a7/#respond Mon, 18 Nov 2024 17:43:04 +0000 https://urduexpress.pk/?p=5867 کبھی جنوبی پنجاب کی پہچان "کپاس کی وادی” کے نام سے ہوا کرتی تھی، جہاں تاحدِ نگاہ سفید پھول کھلتے تھے، جیسے زمین پر چاندنی بکھری ہو۔ یہ حسین نظارہ نہ صرف زراعت کی ترقی کا مظہر تھا بلکہ ملکی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی بھی تھا۔ کسانوں کی محنت، کپاس کی گانٹھوں کی خوشبو، اور دھاگوں کی مضبوطی پاکستان کی شناخت کا حصہ تھی۔

آج یہ منظر دھندلا ہو چکا ہے۔ سفید سونا، جس نے پاکستان کو دنیا بھر میں نمایاں مقام دلایا، اب مٹی ہوتا جا رہا ہے۔ گنے اور چاول کی بے دریغ کاشت نے کپاس کی زمین کو نگل لیا ہے،پانی کے ضیاع اور گرتی ہوئی کپاس کی پیداوار نے ایک قومی بحران کو جنم دیا ہے۔

یہ وقت ہے کہ ہم کپاس کی اہمیت کو نہ صرف پہچانیں بلکہ اسے اپنی ترجیحات میں شامل کریں۔ جنوبی پنجاب کی زرخیز زمین کو دوبارہ "کپاس کی وادی” بنانا صرف خواب نہیں، بلکہ ایک قومی ضرورت ہے۔ کاٹن بیلٹ میں گنے اور چاول کی کاشت پر پابندی عائد کرنا، کپاس کی امدادی قیمت کا بروقت اعلان کرنا، اور ریسرچ و ڈیولپمنٹ پر سرمایہ کاری کو یقینی بنانا وہ اقدامات ہیں جو اس سفید سونے کو دوبارہ جگمگانے کا موقع دیں گے۔ کپاس صرف ایک فصل نہیں بلکہ ہماری معیشت، کسانوں کی امیدوں، اور قومی وقار کا استعارہ ہے۔ اگر ہم نے آج صحیح فیصلے نہ کیے، تو یہ سفید چاندنی ہمیشہ کے لیے دھندلا جائے گی، اور اس کے ساتھ وہ خواب بھی جو ایک خودکفیل اور مضبوط معیشت کا خاکہ پیش کرتے تھے۔ آئیں، اس زمین کو اس کی کھوئی ہوئی شان واپس دلائیں، کیونکہ یہ سفید سونا ہماری آنے والی نسلوں کی روشنی اور خوشحالی کا ضامن ہے۔

]]>
https://tours.bitsnclicks.com/%d8%b3%d9%81%db%8c%d8%af-%d8%b3%d9%88%d9%86%d8%a7-%d8%ac%d9%88-%d9%85%d9%b9%db%8c-%db%81%d9%88%d8%aa%d8%a7-%d8%ac%d8%a7%d8%b1%db%81%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%aa%d8%ad%d8%b1%db%8c%d8%b1-%d8%b3%d8%a7/feed/ 0
امریکی صدارتی نمبر اور فارم پنتالیس، سنتالیس تحریر:زاہد شکور چوہدری https://tours.bitsnclicks.com/%d8%a7%d9%85%d8%b1%db%8c%da%a9%db%8c-%d8%b5%d8%af%d8%a7%d8%b1%d8%aa%db%8c-%d9%86%d9%85%d8%a8%d8%b1-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%81%d8%a7%d8%b1%d9%85-%d9%be%d9%86%d8%aa%d8%a7%d9%84%db%8c%d8%b3%d8%8c-%d8%b3/ https://tours.bitsnclicks.com/%d8%a7%d9%85%d8%b1%db%8c%da%a9%db%8c-%d8%b5%d8%af%d8%a7%d8%b1%d8%aa%db%8c-%d9%86%d9%85%d8%a8%d8%b1-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%81%d8%a7%d8%b1%d9%85-%d9%be%d9%86%d8%aa%d8%a7%d9%84%db%8c%d8%b3%d8%8c-%d8%b3/#respond Sat, 09 Nov 2024 19:26:18 +0000 https://urduexpress.pk/?p=5585 پاکستان میں آج کل ایک بار پھر سے فارم 45 اور 47 پر بحث عروج پر ہے۔ کچھ حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ موجودہ حکمران جماعت امریکی صدر بائیڈن کی پسندیدہ ہے اور فارم 47 کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے۔ دوسری جانب، فارم 45 کو عمران خان کی جماعت سے منسوب کیا جاتا ہے۔

انتخابی عمل میں ان دونوں فارموں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ فارم 45 پولنگ اسٹیشن پر ووٹوں کی گنتی کا ریکارڈ ہے، جسے ریٹرننگ افسر کی نگرانی میں مکمل کیا جاتا ہے۔ یہ بنیادی دستاویز ہے جس پر پوری انتخابی عمارت کھڑی ہے۔ فارم 47 حتمی نتائج کا اعلان ہے جو فارم 45 کے اعداد و شمار پر مبنی ہونا چاہیے۔

لیکن یہاں ایک دلچسپ تضاد سامنے آتا ہے۔ اگر فارم 47 کے نتائج فارم 45 سے مختلف ہوں، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ حقیقی نتائج کیا ہیں؟ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ ان کے فارم 45 کے مطابق انہیں واضح اکثریت حاصل تھی، لیکن فارم 47 میں تبدیلیاں کر کے انہیں اس حق سے محروم کر دیا گیا۔

اب آئیے امریکی صدارتی نمبروں کی جانب۔ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 45ویں صدر تھے اور اب 47ویں صدر بننے کی دوڑ میں ہیں۔ پی ٹی آئی کے حامی اس تناظر کو اپنے موقف کی تائید کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

امریکہ میں جمہوری عمل کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں عوامی فیصلے کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کو ان کے قانونی حق کی فراہمی یقینی بنائی گئی۔ لیکن پاکستان میں، الزامات ہیں کہ عوامی مینڈیٹ کو نظرانداز کر دیا گیا۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے انتخابی عمل کی شفافیت ناگزیر ہے۔ چاہے وہ فارم 45 ہو یا 47، یا پھر صدارتی نمبر – ہر ایک کو اپنی قانونی اور آئینی حیثیت کے مطابق احترام ملنا چاہیے۔

آخر میں، یہ کہنا ضروری ہے کہ ہماری قومی ترقی کا دارومدار ہمارے جمہوری اداروں کی مضبوطی پر ہے۔ ہمیں اپنے انتخابی نظام کو مزید شفاف اور قابل اعتماد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو اور جمہوری اقدار مستحکم ہوں۔

آخر میں نوٹ شامل کرتا چلوں کہ فارم 45، 47 اور امریکی صدارتی نمبروں کی مماثلت ایک دلچسپ تصادف ہے جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا یہ محض اتفاق ہے یا اس کے پیچھے کوئی گہری معنویت چھپی ہے۔ تاہم، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر ملک کے حالات اور سیاسی ماحول مختلف ہوتے ہیں، اور ان عددی مماثلتوں کو صرف ایک دلچسپ تجزیاتی نقطہ نظر کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

]]>
https://tours.bitsnclicks.com/%d8%a7%d9%85%d8%b1%db%8c%da%a9%db%8c-%d8%b5%d8%af%d8%a7%d8%b1%d8%aa%db%8c-%d9%86%d9%85%d8%a8%d8%b1-%d8%a7%d9%88%d8%b1-%d9%81%d8%a7%d8%b1%d9%85-%d9%be%d9%86%d8%aa%d8%a7%d9%84%db%8c%d8%b3%d8%8c-%d8%b3/feed/ 0
کبھی میں کبھی تم کی آخری قسط: ہیپی اینڈنگ تو ٹھیک، لیکن اتنی بورنگ کیوں؟ تحریر: عمران ملک https://tours.bitsnclicks.com/%da%a9%d8%a8%da%be%db%8c-%d9%85%db%8c%da%ba-%da%a9%d8%a8%da%be%db%8c-%d8%aa%d9%85-%da%a9%db%8c-%d8%a2%d8%ae%d8%b1%db%8c-%d9%82%d8%b3%d8%b7-%db%81%db%8c%d9%be%db%8c-%d8%a7%db%8c%d9%86%da%88%d9%86/ https://tours.bitsnclicks.com/%da%a9%d8%a8%da%be%db%8c-%d9%85%db%8c%da%ba-%da%a9%d8%a8%da%be%db%8c-%d8%aa%d9%85-%da%a9%db%8c-%d8%a2%d8%ae%d8%b1%db%8c-%d9%82%d8%b3%d8%b7-%db%81%db%8c%d9%be%db%8c-%d8%a7%db%8c%d9%86%da%88%d9%86/#respond Thu, 07 Nov 2024 11:02:10 +0000 https://urduexpress.pk/?p=5503

آج کل پاکستان میں جہاں بھی جائیں، دو موضوعات ہی زیرِ بحث ہیں: امریکی انتخابات اور ڈرامہ کبھی میں کبھی تم کی آخری قسط۔ بحیثیت ناظر، ہیپی اینڈنگ ہمیشہ پسند آتی ہے کیونکہ اس سے لوگ خوش ہو جاتے ہیں، لیکن اس بار کچھ خاص نہیں تھا۔ نقادوں کی توقعات کہیں زیادہ تھیں۔ وہ چاہتے تھے کہ رباب کا کردار آخر تک دکھایا جائے، اور اس کا عدیل کے ساتھ ایک آخری ٹاکرا بھی ہو، تاکہ کہانی میں تھوڑی سنسنی اور درامہ برقرار رہتا۔ مگر ڈائریکٹر نے فیصلہ کیا کہ فہد مصطفیٰ اور ایگزیکٹو پروڈیوسر کی تشہیر زیادہ اہم ہے۔

مایا خان نے بہن کا کردار بہت خوبصورتی سے ادا کیا، لیکن اس کی کہانی کے اہم پہلو جیسے کہ اس کے والدین کا اسے چھوڑنا، یا رباب اور اس کے والد کے درمیان عدیل کی لالچ اور دھوکہ دہی پر کوئی ایک منظر بھی نہیں دکھایا گیا۔ اسی طرح، فہد مصطفیٰ کے ڈریم ہوم میں شرجینا کو دکھانا بھی ضروری تھا، کیونکہ وہ ہی وہ گھر تھا جس کی وجہ سے دونوں میاں بیوی میں اختلافات پیدا ہوئے۔ بہت سے ناظرین نے اس بات پر شکایت کی کہ اس امارت میں دونوں کا آخری منظر دکھانا ضروری تھا۔

اس ڈرامے میں ایکٹنگ شاندار رہی، فہد مصطفے، بشری انصاری، جاوید شیخ ایکٹنگ کے پرانے کھلاڑی ہیں، جاوید شیخ کی کریکٹرائزیشن تھوڑی کمزور لگی، باقی تمام سینیئر اداکاروں اپنے رول بھر پور طریقے سے نبھائے، ہانیہ عامر اور عماد عرفانی نے ثابت کیا کے کیریکٹر کے ساتھ کیسے کھیلا جاتا ہے، دونوں کو لاجواب ایکٹنگ پر مبارکباد اور آخر میں نعیمہ بٹ نے رباب کے رول میں جسطرح جان ڈالی وہ سینیئر اداکاروں واقعی قابل رشک ہونا چاہیے، جسطرح سے نیگٹو رول میں ہر سین کی مناسبت سے expressions دکھائے اس پر داد تو بنتی ہے-

ڈرامے میں رومانس کا عنصر زیادہ تھا اور پیمرا کی غیر موجودگی بھی محسوس ہوئی۔ یہ ماننا پڑے گا کہ جب کہانی مضبوط ہو اور ڈائریکشن بہترین ہو، تب وہاں کسی بے جا hug یا چمٹنے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ فیملی ڈرامہ کا اپنا ایک تشخص ہونا چاہیے، جہاں کہانی اور اس کے پیغامات زیادہ اہم ہوں۔
اے آر وائی (ARY Digital) کو اس شاندار ڈرامے پر مبارکباد دی جانی چاہیے۔ رائیٹر فرحت اشتیاق نے لاجواب کہانی لکھی، جس میں knitting بھی کمال کی تھی، اور بدر محمود نے سکرین پلے کو بہترین طریقے سے ڈھالا، ہر سین میں ان کی مہارت دکھائی دی۔

ایک درخواست ہے ایگزیکٹو پروڈیوسرز فہد مصطفیٰ اور ہمایوں سعید سے: ٹھیک ہے کہ آپ پیسے بھی لگاتے ہیں اور پیرو بھی آتے ہیں، لیکن کوشش کریں کہ ہر دوسرے سین میں خود نہ دکھیں۔ سکرین ٹائم کو ڈائریکٹر کی صوابدید پر ہونا چاہیے، نہ کہ ایگزیکٹو پروڈیوسر کی مرضی پر۔

بیک گراونڈ سکور کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے، اور ووکل بھی زبردست تھے۔ میک اپ آرٹسٹ پر ایک چھوٹا سا اعتراض یہ ہے کہ جس محنت سے اس نے فہد مصطفیٰ کے میک اپ پر کام کیا، اگر وہ اتنی ہی محنت فیمیل کریکٹرز پر بھی کرتا تو زیادہ بہتر ہوتا۔

]]>
https://tours.bitsnclicks.com/%da%a9%d8%a8%da%be%db%8c-%d9%85%db%8c%da%ba-%da%a9%d8%a8%da%be%db%8c-%d8%aa%d9%85-%da%a9%db%8c-%d8%a2%d8%ae%d8%b1%db%8c-%d9%82%d8%b3%d8%b7-%db%81%db%8c%d9%be%db%8c-%d8%a7%db%8c%d9%86%da%88%d9%86/feed/ 0
پاکستان آٹو شو کا آنکھوں دیکھا حال: گاڑیوں کے سٹالز نے آٹو سپیئر پارٹس سٹالز پر سبقت لے لی https://tours.bitsnclicks.com/%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%d8%a2%d9%b9%d9%88-%d8%b4%d9%88-%da%a9%d8%a7-%d8%a2%d9%86%da%a9%da%be%d9%88%da%ba-%d8%af%db%8c%da%a9%da%be%d8%a7-%d8%ad%d8%a7%d9%84-%da%af%d8%a7%da%91%db%8c/ https://tours.bitsnclicks.com/%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%d8%a2%d9%b9%d9%88-%d8%b4%d9%88-%da%a9%d8%a7-%d8%a2%d9%86%da%a9%da%be%d9%88%da%ba-%d8%af%db%8c%da%a9%da%be%d8%a7-%d8%ad%d8%a7%d9%84-%da%af%d8%a7%da%91%db%8c/#respond Sat, 26 Oct 2024 08:45:31 +0000 https://urduexpress.pk/?p=5153 کل پاکستان ایسوسی ایشن آف آٹو پارٹس اینڈ ایکسیسریز مینوفیکچررز کے زیر اہتمام پاکستان آٹو شو منعقد ہوا، جو تین دن تک جاری رہیگا، شو کا آغاز صبح اسکی باقاعدہ اوپننگ سے ہوا جسمیں وزیرمملکت علی پرویز ملک نے خطاب کیآ اور لوکل مینوفیکچررز کے کردار کو سراہا، PAAPAM کے چیئرمین نے آٹو پارٹس کی ایکسپورٹ میں اضافے پاکستان میں روزگار کے اضافے اور زیادہ سے زیادہ غیر ملکی سرمایہ کاری لانے پر زور دیا_


لاھور چیمبر کے صدر میاں ابوذر شاد نے پاکستان میں معاشی ترقی کو بڑھانے، ٹیکنالوجی میں جدت اور آٹو موٹٹیو سیکٹر کے پاکستانی معیشت میں کردار کو سراہا،
پاکستان آٹو شو میں ملکی و غیر ملکی کمپنیاں بھی اپنے سٹال لگا رہی ہیں، زیادہ سٹال نئے ماڈل کی گاڑیوں کیطرف سے لگائے گئے ہیں، اور زیادہ رش بھی انہیں سٹالز پر ہے-
ہال نمبر ا میں سب سے بڑا سٹال کیا موٹرز کیطرف سے لگایا گیا ہے، اور کیا اسپورٹیج کے نئے ماڈل کی بھر پور تشہیر کی گئی ہے، اس ہال میں MG کیطرف سے بھی سٹال موجود ہے، اور نئے ماڈلز متعارف کرائے گئے ہیں، زیادہ تر لوگوں کی توجہ فراری سے ملتے جلتے سپورٹس ماڈل کیطرف تھی، سازگار موٹرز نے بھی اسی ہال میں کیا موٹرز کے بالکل سامنے ایک بڑا سٹال لگایا ہے، اور انکے نئے ماڈل بھی لوگوں کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے تھے، اسی ہال میں سوزوکی موٹرز کا بھی سٹال تھا لیکن کوئی نیا ماڈل پیش نہیں کیا گیا، عوام نے بھی زیادہ جوش نہیں دکھایا کے سوزوکی موٹرز کے سٹال کا رخ کیا جائے، پاکستان میں جہاں SUV برانڈز بازی لے رہے ہیں، سوزوکی پاکستان کا سب سے پرانا انٹرنیشنل برانڈ ہوتے ہوئے کوئی ماڈل متعارف نہیں کروا سکا، اور مقبولیت میں بہت پیچھے رہ گیا ہے-
ہال نمبر 2 میں ٹویوٹا اور ہنڈا کے سٹالز مدمقابل تھے، ٹویوٹا نے اپنا ہائی برڈ نیا ماڈل ٹویوٹا کراس متعارف کروایا ہے، جسکی بھرپور تشہیر کی جا رہی تھی، میڈیا بائیٹس کے رپورٹر عمر بھنڈر نے جب ٹویوٹا کراس کے متعلق سوالات کے جوابات کیلیے وہاں پر موجود مارکیٹنگ ٹیم سے معلومات لینا چاہیں تو انہوں نے کیمرہ کے سامنے بولنے سے انکار کر دیا اور کہا کے کمپنی پالیسی نہیں ہے، لہذا آپ ٹویوٹا کراس کے متعلق معلومات ویب سائیٹ سے لے سکتے ہیں، یہی جواب ہنڈا موٹرز کیطرف سے تھا، جو اپنے SUV ماڈل VRS کی بھرپور طریقے سے مارکیٹنگ کر رہے تھے، لیکن اس ماڈل کو اتنی پذیرائی نہیں ملی جتنی دوسرے competitor برانڈز کو ملی، وجہ سٹال پر il-informed سٹاف کی موجودگی تھی، جنکو خود بھی برانڈ فیچرز کے متعلق زیادہ نالج نہیں تھا،
اسی ہال میں الغازی ٹریکٹرز کے سٹال پر competent ٹیم موجود تھی، اور سوالوں کے جوابات تسلی بخش تھے اور بیٹھنے کا بھی خاص انتظام تھا،
ہال نمبر 3 میں ایک سٹال جس نے باقی سارے سٹالز کو گہنا دیا تھا وہ سٹال BYD کا تھا، رش دیدنی تھا لیکن پروموشنل سیلز سٹاف اور ٹک ٹاکرز، بلاگرز کے اضافی رش کیوجہ سے اصل کسٹمرز کو اس برانڈ کے متعلق معلومات حاصل کرنے میں کافی دشواری ہوئی، دو تین دفعہ کی کوشش کے باوجود کوئی معلومات ناں ملی تو تصویروں پر ہی گزارا کیا،
چائنہ کے ایک اور برانڈ Changan کے سٹال پر پریس کانفرنس جاری تھی، اور کافی دیر جاری رہی، نئے ماڈلز کا دیدار ناں ہو سکا-
پاک ویلز کے روح رواں اپنے پورے لشکر کیساتھ پورے ایونٹ پر چھائے ہوئے تھے، اور مختلف سٹالز پر جا کر پیڈ endorsements بھی دے رہے تھے، لگ ایسے رہا تھا جیسے پورا ایونٹ یو ٹیوبرز اور بلاگرز کے ہاتھوں ہائی جیک ہو چکا،
بڑے بڑے برانڈز کی مارکیٹنگ ٹیمز کو ایسے ایونٹ پر جہاں گاڑیوں کی قیمت ملینز میں ہو وہاں صارف جاننا چاہے گا کے اس برانڈ کے فیچرز کیا ہیں؟ اس برانڈ کی کسٹمر سروس کیسی ہے؟ کیا اس شو کیلیے کوئی خاص آفر بھی ہے؟ اس طرح کے ایونٹ کو پلیز ٹک ٹاکرز اور یوٹیوبرز کے ہاتھوں ہائی جیک ناں ہونے دیں، انکی اہمیت سے انکار نہیں، چند بلاگرز کی حد تک بات ٹھیک لیکن اتنا رش ڈالنے کی کوئی ضرورت نہیں، پی آر کمپنیوں کو بھی چاہیے کے وہ برانڈ کی احساسیت کو سمجھتے ہوئے وہی ٹک ٹاکرز یا یو ٹیوبرز کو بلائیں جنکی وجہ سے برانڈ کا امیج بڑھے ناں کے امیج خراب ہو!

]]>
https://tours.bitsnclicks.com/%d9%be%d8%a7%da%a9%d8%b3%d8%aa%d8%a7%d9%86-%d8%a2%d9%b9%d9%88-%d8%b4%d9%88-%da%a9%d8%a7-%d8%a2%d9%86%da%a9%da%be%d9%88%da%ba-%d8%af%db%8c%da%a9%da%be%d8%a7-%d8%ad%d8%a7%d9%84-%da%af%d8%a7%da%91%db%8c/feed/ 0
خوبصورت نظر آنا ہے تو چند عادتیں چھوڑ دیں https://tours.bitsnclicks.com/%d8%ae%d9%88%d8%a8%d8%b5%d9%88%d8%b1%d8%aa-%d9%86%d8%b8%d8%b1-%d8%a2%d9%86%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%aa%d9%88-%da%86%d9%86%d8%af-%d8%b9%d8%a7%d8%af%d8%aa%db%8c%da%ba-%da%86%da%be%d9%88%da%91-%d8%af%db%8c/ https://tours.bitsnclicks.com/%d8%ae%d9%88%d8%a8%d8%b5%d9%88%d8%b1%d8%aa-%d9%86%d8%b8%d8%b1-%d8%a2%d9%86%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%aa%d9%88-%da%86%d9%86%d8%af-%d8%b9%d8%a7%d8%af%d8%aa%db%8c%da%ba-%da%86%da%be%d9%88%da%91-%d8%af%db%8c/#respond Tue, 15 Oct 2024 07:08:41 +0000 https://urduexpress.pk/?p=4822 (اُردو ایکسپریس) ہم اکثر ان سیلیبرٹیز سے متاثر ہوتے ہیں، جو 40 یا 50 سال کی ہونے کے باوجود ناصرف خوبصورت اور پُرکشش نظر آتی ہیں بلکہ اپنی عمر سے کہیں زیادہ جواں بھی دکھائی دیتی ہیں، جس کی بنیادی وجہ ان کی روزمرہ کی عادتیں ہیں۔اس کے برعکس ہم لا علمی میں ایسی عادتیں اپنا چکے ہیں جن کی وجہ سے 25 برس کی عمر میں بھی 30 یا 35 برس کے دکھائی دیتے ہیں اور تیزی سے بڑھاپے کی جانب مائل ہو رہے ہیں۔

جواں عمر نظر آنے کے لیے دنیا بھر میں ارب پتی افراد مختلف جتن کرتے ہیں مگر چند عام عادات کو ترک کر دینا بڑھتی عمر کے اثرات کو ظاہر ہونے سے روکنے میں مددگار ثابت ہوتا ہے۔اسٹرا کا استعمال جھریوں کا سببکیا آپ کو معلوم ہے کہ کولڈ ڈرنکس یا کسی بھی قسم کے مشروبات کے لیے گلاس کے بجائے اسٹرا (Straw) کا استعمال چہرے پر لکیریں اور جھریاں پڑنے کا سبب بنتا ہے۔بیوٹی ایکسپرٹس کی رائے کے مطابق کسی بھی مشروب کا استعمال گلاس سے ہی کیا جانا چاہیے، یہی حال سگریٹ پینے والوں کا بھی ہے، ایسے افراد کے چہرے کی جِلد وقت سے پہلے ڈھلک جاتی ہے، سگریٹ پینے کا انداز جھریوں کا سبب بنتا ہے۔

ملٹی ٹاسکنگاکثر افراد کی عادت ہوتی ہے کہ وہ ایک وقت میں 10 کام کرنا پسند کرتے ہیں، وہ اس خوبی کو اپنے لیے فخر کی بات سمجھتے ہیں لیکن اس عادت کا خمیازہ جسم کو ادا کرنا پڑتا ہے۔بہت زیادہ تناؤ جسمانی خلیات کو نقصان پہنچانے اور عمر کی رفتار بڑھانے کا سبب بنتا ہے، اس لیے کوشش کریں کہ ایک وقت میں ایک ہی کام کریں۔میٹھے کا شوقیہ جاننے کے باوجود کہ چینی ہمارے لیے بہتر نہیں ہے، پھر بھی دنیا بھر میں اکثریت میٹھے کی شوقین ہے۔

میٹھا یا شکر وزن میں اضافے کا باعث تو بنتا ہی ہے لیکن ساتھ ہی چہرے کی عمر بڑھانے، آنکھوں کے نیچے حلقے اور جھریوں کا بھی سبب ہے۔طبی ماہرین کے مطابق چینی ہمارے خلیات سے منسلک ہو جاتی ہے اور اس کے نتیجے میں چہرے سے سرخی غائب ہو جاتی ہے۔دوستوں کو وقت نہ دیناہم اپنی زندگی کی مصروفیات میں اس قدر مگن ہوجاتے ہیں کہ اکثر دوست احباب بہت پیچھے رہ جاتے ہیں لیکن کیا آپ جانتے ہیں کہ دوست روح کے لیے اچھے ہوتے ہیں۔ درحقیقت ان کے ساتھ گزارا گیا وقت جسم پر عمر کے اثرات کی روک تھام کے لیے مددگار ثابت ہوتا ہے، وہ خواتین جو صرف مصروفیات کے سبب ذہنی تناؤ کا شکار رہتی ہیں، ان پر عمر کے اثرات وقت سے پہلے ظاہر ہونا شروع ہو جاتے ہیں۔

]]>
https://tours.bitsnclicks.com/%d8%ae%d9%88%d8%a8%d8%b5%d9%88%d8%b1%d8%aa-%d9%86%d8%b8%d8%b1-%d8%a2%d9%86%d8%a7-%db%81%db%92-%d8%aa%d9%88-%da%86%d9%86%d8%af-%d8%b9%d8%a7%d8%af%d8%aa%db%8c%da%ba-%da%86%da%be%d9%88%da%91-%d8%af%db%8c/feed/ 0
امریکی سفرنامہ : عمران ملک (قسط نمبر 3) https://tours.bitsnclicks.com/%d8%a7%d9%85%d8%b1%db%8c%da%a9%db%8c-%d8%b3%d9%81%d8%b1%d9%86%d8%a7%d9%85%db%81-%d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%82%d8%b3%d8%b7-%d9%86%d9%85%d8%a8%d8%b1-3/ https://tours.bitsnclicks.com/%d8%a7%d9%85%d8%b1%db%8c%da%a9%db%8c-%d8%b3%d9%81%d8%b1%d9%86%d8%a7%d9%85%db%81-%d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%82%d8%b3%d8%b7-%d9%86%d9%85%d8%a8%d8%b1-3/#respond Mon, 07 Oct 2024 08:12:32 +0000 https://urduexpress.pk/?p=4582

اٹلانٹا ایئرپورٹ سے باہر آیا تو وائی فائی بند ہو چکا تھا اور اب مشکل یہ کے پہلے سے بک ٹیکسی ڈرائیور سے رابطہ کیسے ہو، دو آپشن تھیں یا تو سارا سامان لیکر ایئر پورٹ کے اندر جایا جائے یا پھر کسی فیلو پسنجر سے واٹس ایپ کال کی درخواست کیجائے، ایک ماسک پہنے ایشین سے درخواست کی اور کال ملائی تو دوسری طرف ڈرائیور احمد تھے کہنے لگے آپکی تصویر دیکھ چکا ہوں، پانچ منٹ میں پہنچتا ہوں، ایشین بھائی کا شکریہ ادا کیا، اور پھر ایک 35 سالہ نوجوان ایک چھوٹی SUV میں برآمد ہوا اور کہا کے عمران بھائی، پلیز بیٹھیں، ہم پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کی بجائے اگلی سیٹ پر براجمان ہو گئے، کیونکہ بھائی نے استقبال ہی ایسا کیا تھا، اپنا تعارف کروایا کے وہ افغانستان سے ہیں اور پاکستان سے ویزا لگوا کر امریکہ آئے ہیں، اسکے علاؤہ پاکستان میں تین سال روزگار بھی کمایا ہے، پاکستانی لوگ تو اچھے ہیں لیکن۔۔۔ میں نے فورا ٹوکا کے بھائی نو پالیٹکس، اور میرے سر میں درد ہے،

بھائی نے ہوٹل پہنچایا، اور پھر اتنے تھکا دینے والے سفر کے بعد ہوٹل میں اگلا امتحان شروع ہوا، کراؤن پلازہ ہوٹل فرنٹ ڈیسک پر موجود شخص کہنے لگا کے کمرے کی ایڈوانس بکنگ تو ہے لیکن refundable تین سو ڈالر بذریعہ کریڈٹ کارڈ جمع کروائیں گے تو ہی آپ کمرے میں جا سکتے ہیں، اپنے تمام کارڈ چیک کر لیے کسی نے اس ٹرانزیکشن کا ساتھ ناں دیا، میں نے کہا بندہ تقریبا 20 گھنٹے سے سفر میں ہے اور نیند کے شدید غلبے میں، رحم کی اپیل ہے، میں نے کہا کیش لے لیں لیکن وہ ناں مانے، پھر کہا کسی بڑے سینیئر مینیجر سے ملوا دیں، تو ایک کمرے میں خاتون سپر وائزر موجود تھیں جنکی ہائیٹ تقریبا ساڑھے چھ فٹ اور وزن دو سو کلو ہو گا، نے غصے سے کہا وہ ہوٹل پالیسی کو violate نہیں کر سکتی، پاکستان میں موجود ٹریول ایجنٹ کو فون کیا تو وہ بھی رات کے پچھلے پہر خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا، تھک ہار کر سامان سمیت لابی میں بیٹھ گیا، اور پھر پاکستانی ذہن کام کرنے لگا کے کوئی جگاڑ لگائی جائے، فرنٹ ڈیسک والا نوجوان میکسیکن تھا اسے میں نے لابی میں بلایا اور پوچھا کے ایک رات کے ایڈوانس 75 ڈالر چارج کرو اور یہ لو 80 ڈالر وہ یہ آفر ٹھکرا ناں سکا اور پھر نیند نے قریبا دس گھنٹے کا پھیرا لگایا، امریکہ کے صبح چار بجے آنکھ کھلی اور پھر تین گھنٹے بعد کا الارم لگا کر سو گیا-

کانفرنس کا پہلا دن، حیات ریجنسی ہوٹل کے تقریبا چار فلور آن لائن نیوز پر سیشنز کیلیے تیار، اپنا accreditation کارڈ لیا، میڈیا کٹ لی، اور میڈیا انفارمیشن کے سمندر میں غوطے لگانے لگا، پہلا سیشن AI سے کس طرح اپنی رپورٹنگ کو بہتر اور موثر بنانا ہے اور پھر سب سے بڑا سیشن چار بجے، امریکی الیکشن، میڈیا کی زمہ داریاں، اور الیکشن مسائل، تقریبا 2 ہزار لوگ اس سیشن میں موجود تھے، بڑی کھل کر بات چیت ہوئی اور پھر آخر میں دس سوالات کیلیے لوگوں کو چنا گیا جسمیں اس ناچیز کا نام بھی آگیا، میرا ساتواں نمبر تھا، پوچھا کے پاکستان میں امریکی الیکشن پر اگر CNN دیکھیں تو ڈیموکریٹس جیت رہے ہوتے ہیں، اور اگر Fox دیکھیں تو ری پبلکن، کونسے چینلز جو un biased رپورٹنگ کر رہے ہوں؟ اور کیا امریکی الیکشن میں بھی دوسرے ملکوں کیطرح اسٹیبلشمینٹ اُمیدواروں کی جیت یا ہار میں اپنا رول پلے کرتی ہے؟
سوال کرنے سے پہلے ضروری تھا کے آپ اپنا تعارف کروائیں، جب میں نے کہا کے عمران ملک فرام پاکستان، اور یہ کانفرنس اٹینڈ کرنے آیا ہوں تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا، اور پھر جب سوال مکمل ہوا تو پھر ہال میں تالیاں بجنے لگیں، پینل میں موجود این پی آر اور نیو یارک ٹائمز کی رپورٹرز نے بھر پور جواب دیا لیکن اسٹیبلشمینٹ والے سوال کو ناں چھیڑا، اور وہ سمجھے میں نے میڈیا اسٹیبلشمنٹ کے متعلق بات کی ہے، سوالات کیبعد دوسرے ہال میں موسیقی کا اہتمام تھا، لوکل اٹلانٹا کے ڈھول بینڈ نے کافی موسم گرمایا، میں جیسے ہی سیشن کیبعد اس ہال میں آرہا تھا تو ایک ساٹھ سالہ سمارٹ شخص، پینٹ کوٹ میں ملبوس میرے قریب آیا اور تعارف کروایا کے وہ AP کا سینیئر جرنلسٹ ہے اور پاکستان میں وہ انکی ویب سائیٹ سے الیکشن کی تفصیلات لے سکتا ہے، دوسرا کہنے لگا کے اسٹیبلشمینٹ والا سوال ذرا لوڈڈ تھا زیادہ تر لوگ ایسے سوال avoid کرتے ہیں، احتیاط کرنا،
پھر میں کنٹری بینڈ کی موسیقی، بوفے ڈنر کے دوران یہی سوچ رہا تھا کے اسٹیبلشمنٹ، اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے چاہے وہ کسی ساؤتھ ایسٹ ایشین ملک کی ہو یا امریکہ کی۔
(جاری ہے)

سفر نامہ کی دوسری قسط پڑھئیے اس لنک میں:امریکی سفر نامہ: عمران ملک ( دوسری قسط)

]]>
https://tours.bitsnclicks.com/%d8%a7%d9%85%d8%b1%db%8c%da%a9%db%8c-%d8%b3%d9%81%d8%b1%d9%86%d8%a7%d9%85%db%81-%d8%b9%d9%85%d8%b1%d8%a7%d9%86-%d9%85%d9%84%da%a9-%d9%82%d8%b3%d8%b7-%d9%86%d9%85%d8%a8%d8%b1-3/feed/ 0