خیبر پختونخواہ کے ضلع کرم کے گاوں، بگن کے ایک رہائشی نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ، ’میں ابھی اگر بتاؤں تو پورا گاؤں ویران ہے، بازار اور دکانیں جل چکی ہیں، ڈسپرین کی گولی بھی لینے جائیں تو نہیں ملتی، چائے کی پتی اور چینی تک دکانوں پر نہیں۔ قریب کے علاقوں سے اگر لوگ آتے ہیں تو وہاں سے سامان لے آتے ہیں، کچھ لوگ کھانے پینے کی چیزیں بھجوا دیتے ہیں، بس اسی طرح گزارہ کر رہے ہیں۔‘
ضلع کرم کے اندر، ویسے تو گزشتہ چند ماہ سے مسلسل کشیدگی جاری ہے لیکن کچھ دن قبل مسافر گاڑیوں کے ایک قافلے پر جب مسلح افراد نے جان لیوا حملہ کیا تو سوشل میڈیا پر دل دہلا دینی والی یہ خبر جنگل کی آگ کی طرح پورے ملک میں پھیل گئی۔
پاکستانی الیکٹرانک میڈیا نے اول تو اس خبر کو ‘پلے ڈاون’ کیا لیکن پھر ماحول کی سنجیدگی کو مد نظر رکھتے ہوئے انہوں نے یہ خبر چلائی۔ البتہ، سوشل میڈیا صارفین الیکٹرانک میڈیا کے اس رویے سے نالاں نظر آئے۔ وہاں کے لوکل صارفین نے اپنے سوشل میڈیا اکاونٹس پر لکھا اور بتایا کہ، اموات کی تعداد غلط بتائی جا رہی ہے، حقیقت میں ہلاکتیں کہیں زیادہ ہوئی ہیں۔
پاکستانی الیکٹرانک میڈیا کے برعکس غیر ملکی میڈیا نے ان پر تشدد واقعات کو خوب کووریج دی، اصل حقائق عوام کے سامنے رکھیں اور اب تک ان واقعات کی مسلسل کووریج کر رہے ہیں۔
دیکھا جائے تو اب بھی خیبر پختونخواہ سمیت 4 صوبوں کے کثیر عوام اس افسوسناک خبر سے بے خبر ہیں اور ان کو معلوم ہی نہیں کہ، ایسا کوئی واقعہ رونما ہوا ہے۔ اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں۔
اول، جہاں یہ ہلاکتیں ہوئی ہیں اور جس وجہ سے ہوئی ہیں، کثیر عوام کو اس سے کوئی سروکار نہیں، نہ ہی وہ اس میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ بظاہر ایسا لگ رہا ہے کہ، ان پر تشدد واقعات کے باعث ان کے کسی ذاتی مفاد کو ٹھیس نہیں پہنچ رہا، اس لئے وہ خاموش ہیں۔
دوم، ملک کے بڑے بڑے میڈیا چینلز، صوبائی و وفاقی حکومت کے اعلی عہدیداران اور قانون نافذ کرنے والے ادارے اس پر چپ سادھ لئے ہوئے ہیں۔ پنجاب اور وفاقی حکومتیں اس کو ایک کارڈ کے طور پر استعمال کر رہی ہیں۔ گزشتہ دنوں وفاقی وزیر دفاع خواجہ آصف کا اپنے ایک بیان میں کہنا تھا کہ، خیبر پختونخواہ میں خون بہہ رہا ہے اور وزیراعلی علی امین گنڈاپور وفاق پر حملہ آور ہو رہے ہیں۔
یہ بیان خواجہ آصف نے شاید اس لئے دیا تھا کیونکہ، پی ٹی آئی نے 24 نومبر کو ڈی چوک، اسلام آباد میں دھرنا دینے کا اعلان کیا تھا اور یہ واضح کیا تھا کہ، یہ فائنل کال ہے، اب کی بار مطالبات پورے ہونے تک واپس نہیں جائیں گے۔ خواجہ صاحب کے بیان سے ایسا معلوم ہوا کہ، جیسے وہ صوبائی حکومت کو طعنہ دے رہے ہوں۔
ضلع کرم کے قبائلی تنازعات بارے خیبر پختونخواہ حکومت کا رویہ بھی کچھ زیادہ سنجیدہ نہیں ہے، انہوں نے فریقین سے مذاکرات کئے، سیز فائر کا اعلان ہوا، لاشیں لواحقین کے حوالے کر دی گئیں لیکن ابھی تک چھڑپیں جاری ہیں اور روزانہ کی بنیاد پر معصوم لوگ موت کے گھاٹ اتر رہے ہیں، جو کہ صوبائی حکومت کی واضح ناکامی ہے۔
ایک غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق اب تک تقریبا 300 گھرانے گاوں، بگن سے نقل مکانی کر چکے ہیں اور کر رہے ہیں۔
اب ذرا ڈی چوک فائنل کال کی بات کرتے ہیں۔ عمران خان نے فائنل کا دی، عوام عمران خان کی اہلیہ بشری بی بی اور وزیراعلی علی امین گنڈاہور کی قیادت میں نکلیں، تمام رکاوٹیں عبور کرکے ڈی چوک، اسلام آباد پہنچ گئے، پھر رات کو اسٹریٹ لائٹس بند کرکے جو گرینڈ آپریشن کیا گیا وہ سب کو بخوبی معلوم ہے۔
پاکستانی الیکٹرانک میڈیا نے ایک بار پھر اپنی اصلیت آشکار کرتے ہوئے اس خبر کو ‘پلے ڈاون’ کیا اور عوام سے حقائق چھپا دئے۔ سینئر صحافی حامد میر نے ایک غیر ملکی میڈیا ادارے کو انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ، الیکٹرانک میڈیا کو حقائق سامنے نہ لانے کا کہا گیا تھا۔
غیر ملکی میڈیا نے یہاں بھی غیر جانبداری کا اپنا فرض نبھاتے ہوئے ڈی چوک کے قریبی ہسپتالوں کا وزٹ کیا، وہاں سے گرینڈ آپریشن کی رات کا ڈیٹا اکھٹا کیا، ڈاکٹرز سے حقائق جاننے کی کوشش کی اور یوں پورے ملک کو پتا چلا کہ، اس رات کس قدر مظالم ڈھائے گئے، ایک جمہوری سیاسی جماعت کے کارکنان پر سیدھی گولیاں برسائی گئیں۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات عطا اللہ تارڑ نے بلند و بانگ دعوے کئے کہ، ایسا کچھ بھی نہیں ہوا، کوئی جانی نقصان نہیں ہوا لیکن پی ٹی آئی کی جانب سے جاری کئے گئے جان سے جانے والے 12 ناموں کی فہرست اور غیر ملکی میڈیا کی رپورٹس شائع ہونے کے بعد ان کے دعوے دھرے کے دھرے رہ گئے، بلکہ عطا اللہ تارڑ کی جماعت کے اپنے رہنما رانا ثناءاللہ نے اعتراف کیا کہ، اس رات پی ٹی آئی کے کچھ کارکنان کی موت واقع ہوئی ہے۔
یہاں دو باتیں اہم ہیں۔ پہلی، پاکستانی اور غیر ملکی میڈیا رپورٹنگ میں فرق، کس قدر ہمارے میڈیا چینلز دباو کا شکار ہیں، ‘اتھاریٹیرین سٹیٹس’ میں میڈیا کا یہی حال ہوتا ہے، وہ اپنے پولیٹیکل-اکنامک انٹرسٹس کو سامنے رکھ کر کام کرتے ہیں۔ غیر ملکی میڈیا پر ہماری ریاست کوئی دباو نہیں ڈال سکتی، اس لئے وہ بغیر کسی ڈر اور خوف زمینی حقائق سامنے لاتے ہیں۔
جب تک صحافیوں کو سچ بولنے سے منع کیا جائے گا تب تک عوام میں شعور نہیں آئے گا، اصلاح کا عمل رک جائے گا، اور ہم جانوروں کی طرح زندگی بسر کر رہے ہوں گے۔ جمہوری ریاست میں ہر فرد کو اظہار رائے کی آزادی ہوتی ہے، یہ ہر فرد کا بنیادی آئینی حق ہے، جو کوئی چھین نہیں سکتا۔
دوسری، عوام اور حکومتی عہدیداران کے ذاتی مفادات، ضلع کرم میں چند دنوں کے اندر اب تک 100 سے زائد افراد شہید ہو چکے ہیں، واقعے کے پہلے دن چرچا ہوا لیکن پھر خاموشی چھا گئی، اس کے خلاف کوئی تحریک نہیں چلی، کوئی سوگ نہیں منایا گیا، کوئی احتجاج اور دھرنا نہیں ہوا کیونکہ اس میں شاید کسی کو اپنا مفاد نظر نہیں آ رہا۔
اس کے برعکس خیبر پختونخواہ حکومت نے ڈی چوک فائنل کال کے دوران مرنے والے افراد کے خاندانوں کیلئے فی کس ایک ایک کروڑ روپے کا اعلان کیا، صوبائی اسمبلی میں اس کے خلاف تقاریریں ہوئیں، تین دن سوگ منایا گیا۔ ان کے بعض رہنماوں نے اپنے سیاسی مقاصد کی خاطر جھوٹا پراپیگنڈا کیا، لطیف کھوسہ نے ایک نجی ٹی وی کے پروگرام میں سینکڑوں کارکنان کے لقمہ اجل بننے کا دعوی کیا، جس کے ابھی تک کوئی شواہد نہ ملے۔
میڈیا اور حکومتی عہدیداران کو اس بات کا ادراک ہونا چاہیئے کہ، جان ‘سب کی’ قیمتی ہے، پھر چاہے پنجابی، پختون، سندھی، بلوچی، گلگتی، کشمیری یا کوئی بھی ہو، چاہے پی ٹی آئی کا ہو، چاہے ‘ن’ لیگ کا ہو، چاہے ایم کیو ایم کا ہو، چاہے تحریک لبیک کا ہو۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ، ہم بطور قوم حق اور سچ کا دامن پکڑے رکھیں، کوئی متعصب رویہ اختیار نہ کریں، سب کو برابر کے حقوق دیں، کوئی پنجابی، پختون، سندھی، بلوچی، کشمیری اور گلگتی کارڈ نہ کھیلیں۔
جب تک ہم اپنے ذاتی مفادات پرے رکھ کر قومی مفاد کو فوقیت نہیں دیں گے، تب تک ہم کسی قسم کی ترقی نہیں کر سکتے۔ سیاسی جماعتیں جب تک دوسروں کے کندھوں پر سوار ہو کر اقتدار کی کرسی تک جانے کا گھناونا عمل جاری رکھیں گی، تب تک ذلت و خواری ہمارا مقدر رہے گی۔
نوٹ: اُردو ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں