بلاگز

امریکی صدارتی نمبر اور فارم پنتالیس، سنتالیس تحریر:زاہد شکور چوہدری

Spread the love

پاکستان میں آج کل ایک بار پھر سے فارم 45 اور 47 پر بحث عروج پر ہے۔ کچھ حلقے دعویٰ کرتے ہیں کہ موجودہ حکمران جماعت امریکی صدر بائیڈن کی پسندیدہ ہے اور فارم 47 کے ذریعے اقتدار میں آئی ہے۔ دوسری جانب، فارم 45 کو عمران خان کی جماعت سے منسوب کیا جاتا ہے۔

انتخابی عمل میں ان دونوں فارموں کا کردار انتہائی اہم ہے۔ فارم 45 پولنگ اسٹیشن پر ووٹوں کی گنتی کا ریکارڈ ہے، جسے ریٹرننگ افسر کی نگرانی میں مکمل کیا جاتا ہے۔ یہ بنیادی دستاویز ہے جس پر پوری انتخابی عمارت کھڑی ہے۔ فارم 47 حتمی نتائج کا اعلان ہے جو فارم 45 کے اعداد و شمار پر مبنی ہونا چاہیے۔

لیکن یہاں ایک دلچسپ تضاد سامنے آتا ہے۔ اگر فارم 47 کے نتائج فارم 45 سے مختلف ہوں، تو یہ سوال اٹھتا ہے کہ حقیقی نتائج کیا ہیں؟ پی ٹی آئی کا موقف ہے کہ ان کے فارم 45 کے مطابق انہیں واضح اکثریت حاصل تھی، لیکن فارم 47 میں تبدیلیاں کر کے انہیں اس حق سے محروم کر دیا گیا۔

اب آئیے امریکی صدارتی نمبروں کی جانب۔ یہ محض اتفاق نہیں ہو سکتا کہ ڈونلڈ ٹرمپ امریکہ کے 45ویں صدر تھے اور اب 47ویں صدر بننے کی دوڑ میں ہیں۔ پی ٹی آئی کے حامی اس تناظر کو اپنے موقف کی تائید کے طور پر پیش کرتے ہیں۔

امریکہ میں جمہوری عمل کی مضبوطی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ وہاں عوامی فیصلے کو تسلیم کیا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کو ان کے قانونی حق کی فراہمی یقینی بنائی گئی۔ لیکن پاکستان میں، الزامات ہیں کہ عوامی مینڈیٹ کو نظرانداز کر دیا گیا۔

ہمیں سمجھنا ہوگا کہ جمہوریت کی مضبوطی کے لیے انتخابی عمل کی شفافیت ناگزیر ہے۔ چاہے وہ فارم 45 ہو یا 47، یا پھر صدارتی نمبر – ہر ایک کو اپنی قانونی اور آئینی حیثیت کے مطابق احترام ملنا چاہیے۔

آخر میں، یہ کہنا ضروری ہے کہ ہماری قومی ترقی کا دارومدار ہمارے جمہوری اداروں کی مضبوطی پر ہے۔ ہمیں اپنے انتخابی نظام کو مزید شفاف اور قابل اعتماد بنانے کی ضرورت ہے تاکہ عوام کا اعتماد بحال ہو اور جمہوری اقدار مستحکم ہوں۔

آخر میں نوٹ شامل کرتا چلوں کہ فارم 45، 47 اور امریکی صدارتی نمبروں کی مماثلت ایک دلچسپ تصادف ہے جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا یہ محض اتفاق ہے یا اس کے پیچھے کوئی گہری معنویت چھپی ہے۔ تاہم، ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہر ملک کے حالات اور سیاسی ماحول مختلف ہوتے ہیں، اور ان عددی مماثلتوں کو صرف ایک دلچسپ تجزیاتی نقطہ نظر کے طور پر دیکھا جانا چاہیے۔

جواب دیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے