اٹلانٹا ایئرپورٹ سے باہر آیا تو وائی فائی بند ہو چکا تھا اور اب مشکل یہ کے پہلے سے بک ٹیکسی ڈرائیور سے رابطہ کیسے ہو، دو آپشن تھیں یا تو سارا سامان لیکر ایئر پورٹ کے اندر جایا جائے یا پھر کسی فیلو پسنجر سے واٹس ایپ کال کی درخواست کیجائے، ایک ماسک پہنے ایشین سے درخواست کی اور کال ملائی تو دوسری طرف ڈرائیور احمد تھے کہنے لگے آپکی تصویر دیکھ چکا ہوں، پانچ منٹ میں پہنچتا ہوں، ایشین بھائی کا شکریہ ادا کیا، اور پھر ایک 35 سالہ نوجوان ایک چھوٹی SUV میں برآمد ہوا اور کہا کے عمران بھائی، پلیز بیٹھیں، ہم پچھلی سیٹ پر بیٹھنے کی بجائے اگلی سیٹ پر براجمان ہو گئے، کیونکہ بھائی نے استقبال ہی ایسا کیا تھا، اپنا تعارف کروایا کے وہ افغانستان سے ہیں اور پاکستان سے ویزا لگوا کر امریکہ آئے ہیں، اسکے علاؤہ پاکستان میں تین سال روزگار بھی کمایا ہے، پاکستانی لوگ تو اچھے ہیں لیکن۔۔۔ میں نے فورا ٹوکا کے بھائی نو پالیٹکس، اور میرے سر میں درد ہے،
بھائی نے ہوٹل پہنچایا، اور پھر اتنے تھکا دینے والے سفر کے بعد ہوٹل میں اگلا امتحان شروع ہوا، کراؤن پلازہ ہوٹل فرنٹ ڈیسک پر موجود شخص کہنے لگا کے کمرے کی ایڈوانس بکنگ تو ہے لیکن refundable تین سو ڈالر بذریعہ کریڈٹ کارڈ جمع کروائیں گے تو ہی آپ کمرے میں جا سکتے ہیں، اپنے تمام کارڈ چیک کر لیے کسی نے اس ٹرانزیکشن کا ساتھ ناں دیا، میں نے کہا بندہ تقریبا 20 گھنٹے سے سفر میں ہے اور نیند کے شدید غلبے میں، رحم کی اپیل ہے، میں نے کہا کیش لے لیں لیکن وہ ناں مانے، پھر کہا کسی بڑے سینیئر مینیجر سے ملوا دیں، تو ایک کمرے میں خاتون سپر وائزر موجود تھیں جنکی ہائیٹ تقریبا ساڑھے چھ فٹ اور وزن دو سو کلو ہو گا، نے غصے سے کہا وہ ہوٹل پالیسی کو violate نہیں کر سکتی، پاکستان میں موجود ٹریول ایجنٹ کو فون کیا تو وہ بھی رات کے پچھلے پہر خواب خرگوش کے مزے لے رہا تھا، تھک ہار کر سامان سمیت لابی میں بیٹھ گیا، اور پھر پاکستانی ذہن کام کرنے لگا کے کوئی جگاڑ لگائی جائے، فرنٹ ڈیسک والا نوجوان میکسیکن تھا اسے میں نے لابی میں بلایا اور پوچھا کے ایک رات کے ایڈوانس 75 ڈالر چارج کرو اور یہ لو 80 ڈالر وہ یہ آفر ٹھکرا ناں سکا اور پھر نیند نے قریبا دس گھنٹے کا پھیرا لگایا، امریکہ کے صبح چار بجے آنکھ کھلی اور پھر تین گھنٹے بعد کا الارم لگا کر سو گیا-
کانفرنس کا پہلا دن، حیات ریجنسی ہوٹل کے تقریبا چار فلور آن لائن نیوز پر سیشنز کیلیے تیار، اپنا accreditation کارڈ لیا، میڈیا کٹ لی، اور میڈیا انفارمیشن کے سمندر میں غوطے لگانے لگا، پہلا سیشن AI سے کس طرح اپنی رپورٹنگ کو بہتر اور موثر بنانا ہے اور پھر سب سے بڑا سیشن چار بجے، امریکی الیکشن، میڈیا کی زمہ داریاں، اور الیکشن مسائل، تقریبا 2 ہزار لوگ اس سیشن میں موجود تھے، بڑی کھل کر بات چیت ہوئی اور پھر آخر میں دس سوالات کیلیے لوگوں کو چنا گیا جسمیں اس ناچیز کا نام بھی آگیا، میرا ساتواں نمبر تھا، پوچھا کے پاکستان میں امریکی الیکشن پر اگر CNN دیکھیں تو ڈیموکریٹس جیت رہے ہوتے ہیں، اور اگر Fox دیکھیں تو ری پبلکن، کونسے چینلز جو un biased رپورٹنگ کر رہے ہوں؟ اور کیا امریکی الیکشن میں بھی دوسرے ملکوں کیطرح اسٹیبلشمینٹ اُمیدواروں کی جیت یا ہار میں اپنا رول پلے کرتی ہے؟
سوال کرنے سے پہلے ضروری تھا کے آپ اپنا تعارف کروائیں، جب میں نے کہا کے عمران ملک فرام پاکستان، اور یہ کانفرنس اٹینڈ کرنے آیا ہوں تو ہال تالیوں سے گونج اٹھا، اور پھر جب سوال مکمل ہوا تو پھر ہال میں تالیاں بجنے لگیں، پینل میں موجود این پی آر اور نیو یارک ٹائمز کی رپورٹرز نے بھر پور جواب دیا لیکن اسٹیبلشمینٹ والے سوال کو ناں چھیڑا، اور وہ سمجھے میں نے میڈیا اسٹیبلشمنٹ کے متعلق بات کی ہے، سوالات کیبعد دوسرے ہال میں موسیقی کا اہتمام تھا، لوکل اٹلانٹا کے ڈھول بینڈ نے کافی موسم گرمایا، میں جیسے ہی سیشن کیبعد اس ہال میں آرہا تھا تو ایک ساٹھ سالہ سمارٹ شخص، پینٹ کوٹ میں ملبوس میرے قریب آیا اور تعارف کروایا کے وہ AP کا سینیئر جرنلسٹ ہے اور پاکستان میں وہ انکی ویب سائیٹ سے الیکشن کی تفصیلات لے سکتا ہے، دوسرا کہنے لگا کے اسٹیبلشمینٹ والا سوال ذرا لوڈڈ تھا زیادہ تر لوگ ایسے سوال avoid کرتے ہیں، احتیاط کرنا،
پھر میں کنٹری بینڈ کی موسیقی، بوفے ڈنر کے دوران یہی سوچ رہا تھا کے اسٹیبلشمنٹ، اسٹیبلشمنٹ ہوتی ہے چاہے وہ کسی ساؤتھ ایسٹ ایشین ملک کی ہو یا امریکہ کی۔
(جاری ہے)
سفر نامہ کی دوسری قسط پڑھئیے اس لنک میں:امریکی سفر نامہ: عمران ملک ( دوسری قسط)