ڈاکٹر ذاکر نائیک کو پہلی مرتبہ سعودیہ عرب میں دو ہزار ایک یا دو میں سنا۔ تب میں کافی "روشن خیال اور ماڈرن” خیالات کا مالک ہوا کرتا تھا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو سن کر میں نے بھی چند اندازے لگائے۔ ایک وہی تھا جو کل پرسوں فرنود عالم نے بھی لکھا (دیگر لبرلز کے پاس میں بلاک ہوں، یا وہ میرے پاس بلاک ہیں) ۔ ۔ وہ اندازہ یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب انسائیکلوپیڈیا ہیں مذاہب کا۔ یعنی ان کو اسلام و دیگر مذاہب کی تمام کتابیں ازبر یاد ہیں، اور وہ سوالات کے جواب میں اپنے دماغ کو "گوگل کرتے ہیں” اور جواب کے لیے آیات و احادیث پیش کر دیتے ہیں۔
دوسرا اندازہ نہیں تھا، بلکہ میرا زعم تھا۔ ویسا ہی زعم جو ہمارے یہاں کے لبرلز کو ہے کہ دنیا کی چند کتابیں پڑھنے کے بعد ہم دنیا کے آخری جینئس بن چکے ہیں۔ اور جو کوئی بھی دنیا میں کچھ کرنا چاہتا ہے، اس کو ویسے کرنا چاہئیے جیسے ہم اس کو بتائیں ۔ ۔ ورنہ وہ نالائق ہمیشہ ناکام و نامراد رہیگا۔
اسی زعم میں میں نے ڈاکٹر ذاکر نائیک کا کافی اینلسس کیا اور دوستوں کو بتایا بھی کہ فلاں فلاں سوال میں ڈاکٹر صاحب کو ایسے جواب دینا چاہئیے تھا۔ مجھے اب وہ سوالات و جوابات یاد نہیں ۔ ۔ مگر یقین کیجیے مجھے تب سو فیصد یقین تھا کہ ان سوالات کے جو جوابات میں دے سکتا ہوں، وہ زیادہ موثر اور منطقی ہیں، جبکہ ڈاکٹر ذاکر نائیک نے کوئی خاص اچھے جوابات نہیں دیے ۔ ۔ بس یاداشت اچھی ہے انکی۔
فاسٹ فارورڈ چوبیس سال !!!
میں آج پاکستان کے ایک چھوٹے سے شہر میں ایک معمولی سا لکھاری ہوں۔
اور ڈاکٹر ذاکر نائیک اسلامی دنیا میں ان چند مقبول ترین مبلغ و اسکالرز میں سے ہیں، جن کو مسلم دنیا بے انتہا عزت کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اور ان کے ہاتھ پر گیارہ لاکھ غیر مسلموں کو مسلمان کرنے کی سعادت موجود ہے۔
سوشل میڈیا پر ڈاکٹر ذاکر نائیک کو "سمجھانے والی” پوسٹس کو دیکھ کر میں بے تحاشا ہنس رہا ہوں کہ یہ سب لوگ بالکل ویسے ہی ڈاکٹر صاحب کو "ٹھیک طریقے سے تبلیغ اسلام” کی تربیت دینے کی کوشش کر رہے ہیں جیسے مجھے چوبیس سال پہلے یقین تھا کہ میں ڈاکٹر صاحب سے زیادہ سمجھدار ہوں۔
رات کو دو تین بجے کام ختم کرنے کے بعد ہفتے میں ایک آدھ بار میں بیٹے اور وائف کو لے کر گھر کے قریبی سڑکوں پر ڈرائیو کرنے نکلتا ہوں تو ایک ویران سڑک سے گذرتے ہوئے وہاں کے آوارہ کتے گاڑی کے ساتھ ساتھ بھاگتے اور بھونکتے جاتے ہیں۔ ۔ ۔ گاڑی گذر جاتی ہے ۔ ۔ کتے واپس اپنی جگہوں پر بیٹھ جاتے ہیں ۔ ۔
پچھلے ہفتے جب یہی ہوا تو میں نے بے اختیار بیگم سے کہا کہ خدا کی قدرت ہے، آوارہ کتوں کو بھی ایک کام دیدیا ہے۔ دیکھو یہ کتنی فکر سے ہر گذرنے والی گاڑی پر بھونکتے اور اس کے پیچھے بھاگتے ہیں ۔ ۔ حالانکہ صبح سے یہ بےشمار گاڑیوں پر بھونک چکے ہوں گے، اور نتیجہ ہر بار ایک ہی نکلا ہوگا ۔ ۔ کہ انکے ہاتھ کچھ نہ آیا ہوگا ۔ ۔اور گذرنے والے کا کچھ نہ بگڑا ہوگا۔ ۔
مگر، میں نے سوچا، کتوں کے احساس ذمہ داری کی داد دینا پڑتی ہے ۔ ۔ رات کے اس پہر جب دور دور کوئی دیکھنے پوچھنے والا نہیں، یہ پھر بھی اپنی نوکری نبھانے کو گذرتی گاڑی پر بھونکنے کو لپکتے ہیں۔ اور اپنا فرض نباہتے ہیں۔
کچھ لوگوں کو بھی یہ احساس ذمہ داری نچلا نہیں بیٹھنے دیتا ۔ ۔ وہ بھونکنا فرض سمجھتے ہیں۔ ۔ جلد ڈاکٹر صاحب کی گاڑی ان سب پر دھول اڑاتی گذر جائیگی ۔
تحریر:محمود فیاض
نوٹ : اُردو ایکسپریس ویب سائٹ اور اسکی پالیسی کا بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں